Tuesday, September 11, 2012

Class XI, Urdu, "ناصر کاظمی غزل 2"

ناصر کاظمی غزل 2

شعر نمبر ۱
فرِ منزل شبِ یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب، یاد نہیں
تشریح
شاعر کا یہ شعر ان کے دکھوں کا آئینہ دار اور اضطراب و بے چینی کا مظہر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں زندگی کے طویل سفر میں تکالیف و مصائب سے ہی سابقہ رہا ہے۔ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا کہ چین نصیب ہوا ہو۔ گویا میری زندگی سفر کی ایک سیاہ رات کی مانند تھی کہ کہیں سے روشنی کی کوئی کرن نہیں نظر آئی۔ اس صورت حال نے مجھے ایسا بد حواس کیا کہ کچھ یاد نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اب یہ بھی یاد نہیں کہ جو لوگ میرے شریکِ سفر تھی وہ کب میرا ساتھ چھوڑ گئے اور میں اس تاریک سفر میں تنہا رہ گیا
شعر نمبر ۲
دل میں ہر وقت چبھن رہتی ہے
تھی تجھے کس کی طلب، یاد نہیں
تشریح
محبوب تغافل پسند ہے۔ وہ کبھی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا۔ اس لئے اس کے عشاق ہمیشہ اس خلش میں مبتلا رہتے ہیں کہ محبوب کس کو چاہتا ہے۔ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ محبوب خود اس سے محبت کرتا ہے تو اطمینان ہو جائے اور اگر اس کے برعکس وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے تو بھی طبعیت کو اطمینان آ جائے۔ شاعر یہی کہتا ہے کہ آج تک ہمارے دل میں یہ خلش ہے کہ ہمارا محبوب کس کو چاہتا ہے۔
شعر میں اگر تجھے کا مشارالیہ دل کو قرار دے دیا جائے یعنی تجھے دل کی طرف اشارہ ہے تو شعر کا مفہوم یہ ہوگا کہ دل میں آج بھی ہر وقت جبھن رہتی ہے۔ کانٹی کی طرح کوئی چیز کھٹکتی رہتی ہے اور لمحے بھر کو بھی سکون میسر نہیں آتا۔ آخر اے دل! تچھے کس کی طلب تھی کہ آج تک اس کی یاد کانٹا بن کر دل میں پیوست ہے۔ کیا تجھے یاد نہیں؟۔ اتنا انجان نہ بن، یہ چبھن تو خود غمازی کر رہی ہے کہ محبوب کی یاد آج بھی تیری دل میں کھٹکتی ہے
شعر نمبر ۳
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں
تشریح
وقت اور حالات زندگی کے دھارے کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے ایک زمانہ گزر گیا۔ زندگی کے نرم و گرم سب دیکھ لئے۔ ہر نشیب و فراز سے گزر گئے۔ اب اس مقام پر آگئے ہیں جہاں ماضی کا ہر لمحہ خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ ماضی میں کن حالات سے گزرے، کیسے کیسے نشیب و فراز سے سابقہ رہا، کون کون ہمارا رفیق رہا، کیسے کیسے دوستوں سے ہم صحبت رہے سب ایک خیال بن کر رہ گیا ہے۔ ایک افسانہ ہے جو کبھی ہم نے پڑھا تھا اب یاد نہیں۔ اگر اب یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا یاد آئے تو چند ایک واقعات ابھرتے ہیں، سب نہیں۔ غرض وقت کے ہاتھوں سارا فسانہ تمام ہو چکا ہے
شعر نمبر ۴
ایسا اُلجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب امنگیں تھیں، آرزوئیں تھیں اور اُن کی تسکین کا سامان بھی مہیا تھا۔ زندگی کے لمحات حسین سے حسین تر تھی اور ہم ان میں کھوئے ہوئے تھے۔ لیکن ایک زمانہ اب یہ آیا ہے جب ہم زندگی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ روز نت نئے مسائل سے سابقہ ہے۔ گویا یہ زندگی مسلسل غموں میں گھری ہوئی ہے۔ پیہم مصائب کا شکار ہے اور ہم اس مےں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ خوشی کا کائی لمحہ ہمیں یاد نہیں بلکہ خوشی کا تصور بھی ذہن میں نہیں رہا
شعر نمبر ۵
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں
تشریح
زمانہ کا عام مزاج یہ ہے کہ لوگ چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ جب حالات اچھے ہوتے ہیں تو لوگ دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جونہی حالات پلٹا کھاتے ہیںلوگ دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کی ساری دوستی ساری چاہتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ لیکن شاعر کہتا ہے کہ ہمارا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ ہماری اس وقت جو حالت بگڑی ہوئی ہے اس کے سبب سے دوستوں نے ہم سے بے تعلقی اور بے مروتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دور بڑا ہی نازک ہے۔ اس دور میں وفا کی امید رکھنا بےکار بات ہے۔ ہمیں کبھی ہمارے احباب نے التفات کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ہماری دوستی تو صرف رسمی تھی جس میں محبت سے زیادہ وقت اور حالات کو دخل ہوتا ہے۔ اس لئے شکوہ کرنا فضول ہے۔ انہیں جب ہمارے حالات اچھے تھے اس وقت کب ہمارا خیال تھا، اس وقت کب ان کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا تھا جو اب ہو گا؟
شعر نمبر ۶
رشتہ جان تھا کبھی جن کا خیال
اُن کی صورت بھی تو اب یاد نہیں
تشریح
وقت بڑا ظالم ہے۔ اس کے ہاتھ میں حالات کا کوڑا ہوتا ہے۔ جس سے وہ دھکیلتا رہتا ہے اور آدمی کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم ہمہ وقت محبوب کے خیال میں مستغرق رہتے تھی۔ اس کے تصور و خیال سے ہی ہماری زندگی کی سانسوں کا رشتہ تھا۔ لیکن وقت کی کارگزاری دیکھئے کہ اب بھی ہم وہی ہیں مگر ہمیں اس محبوب کی صورت بھی یاد نہیں جس کا خیال کبھی ہماری زندگی ہوا کرتا تھا
شعر نمبر ۷
یاد ہے سیرِ چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
تشریح
اے ناصر ہم میلہ چراغاں دیکھنے گئے۔ یہاں مسرت و شادمانی کا ماحول ہوتا ہے۔ وہاں کسی اجنبی کے حسن کے آگے ہمارے دل کا چراغ گل ہو گیا۔ ساری شادمانی اور مسرت رخصت ہوگئی لیکن وہ اجنبی کون تھا کچھ یاد نہیں۔ لیکن آج تک اس کی یاد سے دل بجھا بجھا رہتا ہے

No comments:

Post a Comment