Tuesday, September 11, 2012

Class XI, Urdu, "ناصر کاظمی غزل 1"

ناصر کاظمی غزل 1

شعر نمبر ۱
دل میں ایک لہر سی اُٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
تشریح
شاعر گردو پیش کے واقعات سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے، بیان کر دیتا ہے۔ لیکن جہاں بیان اور اظہار کی زادی نہ ہو وہاں شاعر اپنے اندر ایک گھٹن محسوس کرتا ہے۔ اس کے دل میں اک کرب انگڑائیاں لیتا ہے۔ اس شعر میں بھی یہی کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ اگر گرمی شدید ہو، ہوا رکی ہوئی ہو تو سارے کام معطل ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں وہا کا کوئی جھونکا آجائے تو وہ گویا زندگی کا پیغام ہوتا ہے۔ امنگیں اور آرزوئیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں۔ یہی کیفیت اس وقت ہماری ہے۔ ہم جو عرصے سے خاموش ہیں، اظہار کی تمام قوتوں کو ہم نے جبراً خاموش کر دیا ہے۔ اسی لئے ہم اپنے دل میں ایک گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اب حالات میں تغیر آتا نظر آرہا ہے۔ گویا ہوا کا تازہ تازہ جھونکا آیا ہے جس سے دل میں آرزوﺅں اور امنگوں کی لہریں اٹھنے لگی ہیں۔ یعنی اب ہمےں اپنے احساسات اور خیالات کے اظہار کا پورا موقع ملے گا
شعر نمبر ۲
شور برپا ہے خانہ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
تشریح
دل مثل گھر کے ہے اور گھر دیواروں سے گھرے ہوئے حصے کو کہتے ہیں۔ ہماری دل میں زبردست شور برپا ہے اور یہ شور اس سبب سے ہے کہ گھر کی کوئی دیوار گری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل خواہشات اور آرزوﺅں کا مرکز ہے۔ اب پھر ہماری کسی آرزو کاخون ہوا ہے۔ اب پھر ہماری کوئی خواہش دم توڑنے لگی ہے۔ اسی لئے دل میں نالہ و فریاد کی کیفیت پیدا ہوئی ہے
شعر نمبر ۳
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تشریح
تمام جذبوں کا تعلق دل سے ہے۔ غم و الم کا، مسرت و خوشی کا، غرض ہر جذبہ دل کی کیفیت سے ابھرتا ہے۔ دل اگر شاداں و فرحاں ہے تو ہر شے میں مسرت و انبساط موجِ زن نظر آتی ہے۔ لیکن دل اگر اداس و غمگین ہو تو ہر شے اداس معلوم ہوتی ہے، ماتم کناں نظر آتی ہے۔ شاعر اسی کیفیت کو اس شعر میں بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ دنیا میں رونقیں اپنے عروج پر ہیں، ہر شے شگفتہ و شادماں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس دنیا میں میرا جی نہیں لگتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کس چیز کی کمی ہے۔ میرا دل محبوب کے فراق میں غم زدہ ہے۔ اسی لئے اداس و غمگین رہتا ہے
شعر نمبر ۴
تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامُشی ہے ابھی
تشریح
چہرہ اندرونی کیفیات کا عکاس ہوتا ہے اور جو واقف ہوتے ہیںوہ چہرے کی کیفیات کو دیکھ کر ہی دل کی کیفیات کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ شاعر نے یہی بات بڑے خوبصورت انداز میں اس شعر میں بیان کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب! تو محفل میں موجود ہے لیکن خاموش، کسی سے بات نہیں کر رہا ہے مگر تو ہم سے ہم کلام ہے۔ اس طرح کہ تیری خاموشی کے سبب تیرے چہرے پر جو تاثرات ابھر رہے ہیں وہ ہم سے تیری کیفییت بیان کر رہے ہیں۔ گویا تیری خاموشی سے ہم باتیں کر رہے ہیں اور یہ اعزاز محفل میں ہمارے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔
یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ محبوب خاموش ہے مگر اس کے چاہنے والے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کے دل کو مفہوم اخذ کررہے ہیں۔ اس طرح وہ خاموش ہوتے ہوئے بھی محفل میں سب سے ہم کلام ہے
شعرنمبر ۵
یاد کے بے نشان جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
تشریح
شاعر کہتا ہے ہم نے قرارِ یار میں زندگی بتا دی۔ تیری ےادوں کے حسین لمحات کے سہارے زندگی کا طویل سفر طے کر لیا۔ لیکن اب تیری یادوں کے عکس بھی دھندلانے لگے ہیں۔ ماضی کرے دریچوں سے جو تیری نصویر ابھرتی تھی وہ دھندلی ہو چلی ہے۔ تیری یادوں جو سرمایہ �¿ زندگی تھیںوہ خواب ہو چکی ہیں۔ البتہ جب کبھی ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو تیری یادوں کے ویرانوں میں تیری ہی آواز گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ اس طرح تجھ سے تعلق اب بھی باقی ہے
شعر نمبر ۶
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تُجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
تشریح
شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی غیر موجودگی سے دنیا کی تمام رونق ختم ہو جاتی ہے۔ ہر طرف اداسی مسلط ہو جاتی ہے۔ ہر شے ویران دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ دل اداس و غمگین ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو حالات اس کے بر عکس ہیں۔ انقلاباتِ زمانہ کے سبب رونقیں ختم ہو چکی ہیں۔ دنیا کے تمام ہنگامے اور دلچسپیاں بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہر طرف اداسی ہے، ویرانہ ہے، ایسے میں تیری یادیں اور تڑپا رہی ہیں اور میں بے ساختہ شہر کی ویران گلیوں میں تجھے تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک زمانے کے سبب میں مبتلائے غم ہوں اور دوسرے محبوب کی تاد مجھے تڑپا رہی ہے
شعر نمبر ۷
سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تشریح
عشق ہر دل پر اثر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کوئی اس کا اظہار کر دیتا ہے اور کوئی خاموش رہتا ہے۔ ہم جسے محبوب کہتے ہیں سنگدل اور بے وفاگردانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسے ہم سے محبت نہیں۔ یہ بات بنیادی طور پر غلط ہے۔ ہمیں اپنے محبوب سے جتنی محبت ہے، انتا ہی ہمارے محبوب کو ہم سے ہے۔ ہم اگر محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گلی گلی آوارہ پھرتے ہیں تو وہ سنگدل بھی ہمارے انتظار میں رات بھر اپنے گھر کی کھڑکی کھلی رکھتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ہم رات کے سناٹی اور تاریکی میں اس طرف ضرور آئیں گے۔ اس شعر میں ایک بات یہ بھی ہے کہ محبوب یہ کام اس وقت کرتا ہے جب تمام لوگ سو چکے ہوں۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ گھر کے مکین اس کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے۔ اس لئے کہ ان کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہے۔ شاعر نے ”حویلی“ کے الفاظ سے اس کی وضاحت کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم اگر محبوب کے فراق میں آوارہ پھرتے ہیں تو وہ بھی ہمارے انتظار میں رات کی تاریکی میں آنکھیں بچھائے رہتا ہے کہ زمانہ طبقاتی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے
شعر نمبر ۸
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
تشریح
زندگی امید و بیم کا دوسرا نام ہے۔ کبھی تو آدمی زمانے کے حالات سے مایوس ہو کر انجانے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کبھی زمانے کو دکھوں اور تلخیوں سے جھانکتی ہوئی امید کی کرنیں نظر آتی ہیں جن کے سہارے آدمی آگے بڑھنے لگتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ مانا زندگی دکھوں سے بھری ہوئی ہے، زمانے کی تلخیوںنے ہمیں ایک عجیب سی گھٹن اور حبس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مگر مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ زمانہ تغیر پذیر ہے۔ حالات بدلتے ہیں، ہر رات کے بعد دن ہے، ہر خزاں کے بعد بہار ہے۔ اس لئے یقین رکھو کہ حالات ضرور بہتر ہوں گے۔ یہ رات یہ گھنگھور اندھیرا ضرور اجالے میں تبدیل ہو جائے گا

No comments:

Post a Comment