Sunday, October 16, 2011

Class IX, PAKISTAN STUDIES, "سوال ۔ نظریے میں قومی کردار کا کیا مقام ہے؟"

سوال ۔ نظریے میں قومی کردار کا کیا مقام ہے؟
نظریہ او ر قومی کردار
کسی فرد کی عادات واطوار اور طرز زندگی کے مجموعے کو عام طور پر کردار سمجھا جاتا ہے اور اس شخص کا نظریہ اسکے کردار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ نظریے کی روشنی میں قومی کردار درج ذیل اخلاقی اقدار سے تشکیل پاتا ہے۔
نظریے پر پختہ یقین
جب تک کوئی شخص اپنے قومی نظریے پر پختہ یقین نہیں رکھتا ہے تب تک اس کا کردار قومی جذبے سے عاری رہتا ہے اور اس کے اعمال و افعال قومی مفاد میںنہیں ہوتے۔ اس لئے ہمیں اسلامی اقدار کی روشنی میں اپنا کردار بنانا چاہئے۔ یہ نظریہ�¿ پاکستان میں عوام کا پختہ یقین تھا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے ایک نظریاتی مملکت پاکستان کے حصول کے لئے اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اس لئے ہمارا کردار ایک ایسے مسلمان کا عکاس ہونا چاہئے جو اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرتا ہو۔
سپردگی یا وقف کردینا
اس کے معنی ہے کہ اپنے آپ کو کسی مقصد کے حصول کے لئے گہرے جذبے اور احساسِ فرض شناسی کے ساتھ مخصوص کردینا۔ جو شخص قومی نظریے سے مکمل ہم آہنگ ہوکر کام کرتا ہے وہی صحیح معنوں میں قومی معاشرے کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیتا ہے۔ بحیثیت ایک پاکستانی ہمارا کردار اسلامی طرز زندگی کے مطابق ہونا چاہئے۔
ایمانداری اور دیانتداری
ایمانداری اور دیانتداری ایسی صفت ہے جس کا تمام معاشروں میں اعتراف کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو نیک زندگی گزارنا چاہئے اور اپنے قول و فعل سے ایمانداری اور راست بازی کی عکاسی کرنی چاہئے۔ تجارت ہو یا زندگی کے دوسرے میدان، لوگوں سے معاملات کرتے وقت ایمانداری نظر آنی چاہئے۔ اسلام نے بڑے سخت الفاظ میں ایمانداری پر زور دیا ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں زندگی کے تمام شعبوں میں عوام کی ایمانداری اور دیانتداری نمایاں تھی جس نے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کی۔
حبّ الوطنی
کسی بھی شخص کی اپنے وطن سے محبت اور اس کے لئے قربانی کا اندرونی جذبہ اور خلوص حبّ الوطنی کہلاتا ہے۔کسی آزمائش کے وقت یا اگر آزادی کو خطرہ ہو تو اس وقت لوگ اپنے قومی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بھارت کے خلاف 1965ءکی جنگ کے دوران پاکستانیوں نے حبّ الوطنی کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ جو دراصل ان کے قومی کردار کا مظہر تھا۔
محنت اور مشقت
قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اس کے افراد سخت محنت و مشقت کرتے ہیں۔ اس کے لئے احساسِ فرض شناسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اس لئے خوشحال اور ترقی یافتہ بن سکی ہیں کیونکہ ان کے عوام میں شدید احساس فرض شناسی و ذمہ داری پایا جاتا ہے۔کسی بھی ملک کے وسائل اس کے افراد کی سخت محنت کی بدولت ہی ترقی اور خوشحالی کا روپ دھارتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں۔
قومی مفاد
کسی بھی شخص کے ذاتی کردار کو لازماًقومی مفاد کی برتری اور فوقیت کی عکاسی کرنا چاہئے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسی رویہ سے ایمانداری، دیانتداری اور سپردگی کی صفات اور خوبیاں پھلتی اور پھولتی ہیں ۔صرف وہی قومیں زندہ و پائندہ رہتی ہیں جن کے افراد اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں

1 comment: